Skip to main content

جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا

جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا
مری سوچ خزاں کی شاخ بنی ترا چہرہ اور گلاب ہوا

برفیلی رت کی تیز ہوا کیوں جھیل میں کنکر پھینک گئی
اک آنکھ کی نیند حرام ہوئی اک چاند کا عکس خراب ہوا

ترے ہجر میں ذہن پگھلتا تھا ترے قرب میں آنکھیں جلتی ہیں
تجھے کھونا ایک قیامت تھا ترا ملنا اور عذاب ہوا

بھرے شہر میں ایک ہی چہرہ تھا جسے آج بھی گلیاں ڈھونڈتی ہیں
کسی صبح اسی کی دھوپ کھلی کسی رات وہی مہتاب ہوا

بڑی عمر کے بعد ان آنکھوں میں کوئی ابر اترا تری یادوں کا
مرے دل کی زمیں آباد ہوئی مرے غم کا نگر شاداب ہوا

کبھی وصل میں محسنؔ دل ٹوٹا کبھی ہجر کی رت نے لاج رکھی
کسی جسم میں آنکھیں کھو بیٹھے کوئی چہرہ کھلی کتاب ہوا

Comments

Popular posts from this blog

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا

اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا