Skip to main content

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا

دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو
ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا

کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا
اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا

تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے
تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا

اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے
جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا

حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی
رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا

قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت
قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا

جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے
ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا

Comments

Popular posts from this blog

اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا