Skip to main content

Posts

Showing posts from January, 2018

جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا

جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا وہ خود کو ڈھونڈنے کے حوالے تو دے گیا اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر کی بچوں کو اپنی بھیک کے پیالے تو دے گیا اب میری سوچ سائے کی صورت ہے اس کے گرد میں بجھ کے اپنے چاند کو ہالے تو دے گیا شاید کہ فصل سنگ زنی کچھ قریب ہے وہ کھیلنے کو برف کے گالے تو دے گیا اہل طلب پہ اس کے لیے فرض ہے دعا خیرات میں وہ چند نوالے تو دے گیا محسنؔ اسے قبا کی ضرورت نہ تھی مگر دنیا کو روز و شب کے دوشالے تو دے گیا

جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا

جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا مری سوچ خزاں کی شاخ بنی ترا چہرہ اور گلاب ہوا برفیلی رت کی تیز ہوا کیوں جھیل میں کنکر پھینک گئی اک آنکھ کی نیند حرام ہوئی اک چاند کا عکس خراب ہوا ترے ہجر میں ذہن پگھلتا تھا ترے قرب میں آنکھیں جلتی ہیں تجھے کھونا ایک قیامت تھا ترا ملنا اور عذاب ہوا بھرے شہر میں ایک ہی چہرہ تھا جسے آج بھی گلیاں ڈھونڈتی ہیں کسی صبح اسی کی دھوپ کھلی کسی رات وہی مہتاب ہوا بڑی عمر کے بعد ان آنکھوں میں کوئی ابر اترا تری یادوں کا مرے دل کی زمیں آباد ہوئی مرے غم کا نگر شاداب ہوا کبھی وصل میں محسنؔ دل ٹوٹا کبھی ہجر کی رت نے لاج رکھی کسی جسم میں آنکھیں کھو بیٹھے کوئی چہرہ کھلی کتاب ہوا

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ہوا کل تک جس کے گرد تھا رقصاں اک انبوہ ستاروں کا آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ہوا اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے اس سے کیسا شکوہ کیجے وہ تو ابھی نادان ہوا جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا یوں بھی کم آمیز تھا محسنؔ وہ اس شہر کے لوگوں میں لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا