Skip to main content

اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا

اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا

کس کے بس میں تھا ہوا کی وحشتوں کو روکنا
برگ گل کو خاک شعلے کو دھواں ہونا ہی تھا

جب کوئی سمت سفر طے تھی نہ حد رہ گزر
اے مرے رہ رو سفر تو رائیگاں ہونا ہی تھا

مجھ کو رکنا تھا اسے جانا تھا اگلے موڑ تک
فیصلہ یہ اس کے میرے درمیاں ہونا ہی تھا

چاند کو چلنا تھا بہتی سیپیوں کے ساتھ ساتھ
معجزہ یہ بھی تہہ آب رواں ہونا ہی تھا

میں نئے چہروں پہ کہتا تھا نئی غزلیں سدا
میری اس عادت سے اس کو بد گماں ہونا ہی تھا

شہر سے باہر کی ویرانی بسانا تھی مجھے
اپنی تنہائی پہ کچھ تو مہرباں ہونا ہی تھا

اپنی آنکھیں دفن کرنا تھیں غبار خاک میں
یہ ستم بھی ہم پہ زیر آسماں ہونا ہی تھا

بے صدا بستی کی رسمیں تھیں یہی محسنؔ مرے
میں زباں رکھتا تھا مجھ کو بے زباں ہونا ہی تھا

Comments

Popular posts from this blog

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا

اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا