Skip to main content

Posts

Showing posts from December, 2017

بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا

بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا اداس نسلوں پہ اب اجارہ نہیں چلے گا ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا حیات اب شام غم کی تشیبہ خود بنے گی تمہاری زلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا چلو سروں کا خراج نوک سناں کو بخشیں کہ جاں بچانے کا استخارہ نہیں چلے گا ہمارے جذبے بغاوتوں کو تراشتے ہیں ہمارے جذبوں پہ بس تمہارا نہیں چلے گا ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسنؔ چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا

بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا

بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا ہوا سے ڈرنا بجھے چراغوں سے پیار کرنا کھلی زمینوں میں جب بھی سرسوں کے پھول مہکیں تم ایسی رت میں سدا مرا انتظار کرنا جو لوگ چاہیں تو پھر تمہیں یاد بھی نہ آئیں کبھی کبھی تم مجھے بھی ان میں شمار کرنا کسی کو الزام بے وفائی کبھی نہ دینا مری طرح اپنے آپ کو سوگوار کرنا تمام وعدے کہاں تلک یاد رکھ سکو گے جو بھول جائیں وہ عہد بھی استوار کرنا یہ کس کی آنکھوں نے بادلوں کو سکھا دیا ہے کہ سینۂ سنگ سے رواں آبشار کرنا میں زندگی سے نہ کھل سکا اس لیے بھی محسنؔ کہ بہتے پانی پہ کب تلک اعتبار کرنا

ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا

ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس زرد موسم بانجھ رت کو بے لباسی دے گیا صبح کے تارے مری پہلی دعا تیرے لیے تو دل بے صبر کو تسکیں ذرا سی دے گیا لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے زلزلہ اہل زمیں کو بد حواسی دے گیا تند جھونکے کی رگوں میں گھول کر اپنا دھواں اک دیا اندھی ہوا کو خود شناسی دے گیا لے گیا محسنؔ وہ مجھ سے ابر بنتا آسماں اس کے بدلے میں زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا

اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا

اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا

اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے خامشی کا وہی انداز صداؤں جیسا پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا اس کا انداز تغافل تھا خداؤں جیسا کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساس‌ مآل پھول کھل کر بھی رہا زرد خزاؤں جیسا کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا

اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا

اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا کس کے بس میں تھا ہوا کی وحشتوں کو روکنا برگ گل کو خاک شعلے کو دھواں ہونا ہی تھا جب کوئی سمت سفر طے تھی نہ حد رہ گزر اے مرے رہ رو سفر تو رائیگاں ہونا ہی تھا مجھ کو رکنا تھا اسے جانا تھا اگلے موڑ تک فیصلہ یہ اس کے میرے درمیاں ہونا ہی تھا چاند کو چلنا تھا بہتی سیپیوں کے ساتھ ساتھ معجزہ یہ بھی تہہ آب رواں ہونا ہی تھا میں نئے چہروں پہ کہتا تھا نئی غزلیں سدا میری اس عادت سے اس کو بد گماں ہونا ہی تھا شہر سے باہر کی ویرانی بسانا تھی مجھے اپنی تنہائی پہ کچھ تو مہرباں ہونا ہی تھا اپنی آنکھیں دفن کرنا تھیں غبار خاک میں یہ ستم بھی ہم پہ زیر آسماں ہونا ہی تھا بے صدا بستی کی رسمیں تھیں یہی محسنؔ مرے میں زباں رکھتا تھا مجھ کو بے زباں ہونا ہی تھا