Skip to main content

Posts

جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا

جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا وہ خود کو ڈھونڈنے کے حوالے تو دے گیا اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر کی بچوں کو اپنی بھیک کے پیالے تو دے گیا اب میری سوچ سائے کی صورت ہے اس کے گرد میں بجھ کے اپنے چاند کو ہالے تو دے گیا شاید کہ فصل سنگ زنی کچھ قریب ہے وہ کھیلنے کو برف کے گالے تو دے گیا اہل طلب پہ اس کے لیے فرض ہے دعا خیرات میں وہ چند نوالے تو دے گیا محسنؔ اسے قبا کی ضرورت نہ تھی مگر دنیا کو روز و شب کے دوشالے تو دے گیا

جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا

جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا مری سوچ خزاں کی شاخ بنی ترا چہرہ اور گلاب ہوا برفیلی رت کی تیز ہوا کیوں جھیل میں کنکر پھینک گئی اک آنکھ کی نیند حرام ہوئی اک چاند کا عکس خراب ہوا ترے ہجر میں ذہن پگھلتا تھا ترے قرب میں آنکھیں جلتی ہیں تجھے کھونا ایک قیامت تھا ترا ملنا اور عذاب ہوا بھرے شہر میں ایک ہی چہرہ تھا جسے آج بھی گلیاں ڈھونڈتی ہیں کسی صبح اسی کی دھوپ کھلی کسی رات وہی مہتاب ہوا بڑی عمر کے بعد ان آنکھوں میں کوئی ابر اترا تری یادوں کا مرے دل کی زمیں آباد ہوئی مرے غم کا نگر شاداب ہوا کبھی وصل میں محسنؔ دل ٹوٹا کبھی ہجر کی رت نے لاج رکھی کسی جسم میں آنکھیں کھو بیٹھے کوئی چہرہ کھلی کتاب ہوا

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ہوا کل تک جس کے گرد تھا رقصاں اک انبوہ ستاروں کا آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ہوا اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے اس سے کیسا شکوہ کیجے وہ تو ابھی نادان ہوا جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا یوں بھی کم آمیز تھا محسنؔ وہ اس شہر کے لوگوں میں لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا

پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا

بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا

بنام طاقت کوئی اشارہ نہیں چلے گا اداس نسلوں پہ اب اجارہ نہیں چلے گا ہم اپنی دھرتی سے اپنی ہر سمت خود تلاشیں ہماری خاطر کوئی ستارہ نہیں چلے گا حیات اب شام غم کی تشیبہ خود بنے گی تمہاری زلفوں کا استعارہ نہیں چلے گا چلو سروں کا خراج نوک سناں کو بخشیں کہ جاں بچانے کا استخارہ نہیں چلے گا ہمارے جذبے بغاوتوں کو تراشتے ہیں ہمارے جذبوں پہ بس تمہارا نہیں چلے گا ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسنؔ چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا

بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا

بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا ہوا سے ڈرنا بجھے چراغوں سے پیار کرنا کھلی زمینوں میں جب بھی سرسوں کے پھول مہکیں تم ایسی رت میں سدا مرا انتظار کرنا جو لوگ چاہیں تو پھر تمہیں یاد بھی نہ آئیں کبھی کبھی تم مجھے بھی ان میں شمار کرنا کسی کو الزام بے وفائی کبھی نہ دینا مری طرح اپنے آپ کو سوگوار کرنا تمام وعدے کہاں تلک یاد رکھ سکو گے جو بھول جائیں وہ عہد بھی استوار کرنا یہ کس کی آنکھوں نے بادلوں کو سکھا دیا ہے کہ سینۂ سنگ سے رواں آبشار کرنا میں زندگی سے نہ کھل سکا اس لیے بھی محسنؔ کہ بہتے پانی پہ کب تلک اعتبار کرنا

ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا

ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس زرد موسم بانجھ رت کو بے لباسی دے گیا صبح کے تارے مری پہلی دعا تیرے لیے تو دل بے صبر کو تسکیں ذرا سی دے گیا لوگ ملبوں میں دبے سائے بھی دفنانے لگے زلزلہ اہل زمیں کو بد حواسی دے گیا تند جھونکے کی رگوں میں گھول کر اپنا دھواں اک دیا اندھی ہوا کو خود شناسی دے گیا لے گیا محسنؔ وہ مجھ سے ابر بنتا آسماں اس کے بدلے میں زمیں صدیوں کی پیاسی دے گیا